خودی پر اشعار
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!
(علامہ اقبال)
بہ قدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
جمیلؔ مظہری
چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے
آساں کو چھوڑ بندے مشکل کو ڈھونڈتے ہیں
عبد الحمید عدم
.....
ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا
ناطق گلاوٹھی
.....
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
یگانہ چنگیزی
......
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال
......
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
علامہ اقبال
....
میں سارے فاصلے طے کر چکا ہوں
خودی جو درمیاں تھی درمیاں ہے
بکل دیو
.....
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے
زہرا نگاہ
....
اے سنگ آستاں مرے سجدوں کی لاج رکھ
آیا ہوں اعتراف شکست خودی لیے
اعجاز وارثی
.....
نہ محتسب کی خوشامد نہ میکدے کا طواف
خودی میں مست ہوں اپنی بہار میں گم ہوں
سراج لکھنوی
.....
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
علامہ اقبال
......
حکیمی، نامسلمانی خودی کی
کلیمی، رمز پنہانی خودی کی
تجھے گر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی!
(علامہ اقبال)
خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہٰ الا اللہ
0 تبصرے