علامہ اقبال شاعری ، دو لائن اردو شاعری، 2 line urdu poetr      allama iqbal poetry

allama iqbal poetry



کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

 

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے  پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ہے

 

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نہ نہیں صبح و شام پیدا کر

 

وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

 

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

 

ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

 

 

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

 

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں

 

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

 

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

 

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

 

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

 

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

 

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

 

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ

 

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو میرا نہیں بنتا ، نہ بن اپنا تو بن بن

 

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

 

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی خیز ہے ساقی

 

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

 

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

 

یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی

یا بندہ خدا بن یا بندہ زمانہ نہ

 

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے

 

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

 

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

میری سادگی تھے دیکھ کیا چاہتا ہوں

 

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ہے

 

مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں  میں

تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ

 

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی  ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا

 

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

 

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہے

 

باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

 

پٹنہ پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

 

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

 

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو

کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ہو

 

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے

اے! بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

 

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر پر اسرار شہنشاہی ہیں

 

 علامہ اقبال شاعری

allama iqbal poetry